پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے 19 بچوں اور
ایک استانی کا تعلق شہر کی ایک رہائشی کالونی گلبہار سے تھا۔
پشاور شہر کی طرح گلبہار کے لوگ بھی افسردہ ہیں۔ اس علاقے میں حکیم بخاری کالونی میں نویں جماعت کے دو طالب علم اور استانی سحر افشاں رہتے تھے۔
ان تینوں نے دیگر بچوں کو شدت پسندوں سے بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ سحر افشان نے مزاحمت کی اور سکول حملے میں ہلاک ہونے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔
گلبہار کے مختلف گلی کوچوں میں کہیں ایک تو کہیں دو بچے اس سانحے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
گلبہار کالونی پشاور کے اندرون شہر گنجان آباد کی بعد 1970 کی دہائی میں قائم کی گئی تھی۔
اس علاقے میں زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ بیشتر لوگ نوکر پیشہ اور تاجر بتائے گئے ہیں۔ آرمی پبلک سکول میں اردو کا مضمون پڑھانے والی سحر افشان بھی گلبہار کے علاقے حکیم بخاری سٹریٹ کی رہائشی تھیں۔
گھر کے کل افراد ایک بوڑھی ماں، ایک بھائی اور ایک سحر افشان خود تھیں۔ والد فوت ہو چکے ہیں۔
سحر افشاں ایک اچھی منتظم اور بہادر خاتون تھیں یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ڈیٹوریم میں داخل ہونے والے شدت پسندوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی مزاحمت بھی کی تھی۔
ان کے بھائی فواد گل کے مطابق انھیں یقین نہیں آرہا کہ اب ان کی چھوٹی بہن اس دنیا میں نہیں رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں طالب علموں نے بتایا کہ ان کی ٹیچر نے شدت پسندوں کو اندر آنے سے روکا کیونکہ وہ کوئی آرمی افسر یا سکول کے عملے کے لوگ نہیں لگ رہے تھے۔
شدت پسندوں نے انھیں پہلے سر پر گولی ماری پھر کندھوں پر
گولی ماری۔ وہ اس سکول میں ہلاک ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔گلبہار کے علاقے حکیم بخاری سٹریٹ میں سحر افشان کے علاوہ نویں جماعت کے دو طالب علم بھی رہتے تھے جن میں کے بارے میں لوگوں نے بتایا کہ وہ خود باہر نکل سکتے تھے لیکن وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور دیگر بچوں کو بچانے کے لیے وہیں موجود رہے۔
سکول حملے میں ہلاک ہونے والے بیشتر بچوں کی رحمان بابا قبرستان میں تدفین کی گئی ہے۔ جمعے کو لوگوں نے قبروں پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور دعائیں کیں۔
بیشتر مساجد میں نماِ جمعہ کے بعد ہلاک ہونے والے افراد کے لیے دعائیں کی گئیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت کو اب اس طرح کی کارروائیاں روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔
آرمی سکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 149 ہو گئی ہے۔گذشتہ رات اسی ایم ایچ میں ایک زخمی بچہ دم توڑ گیا ہے۔
0 comments:
Post a Comment